صفائی کا فوبیا (الف۔الف، کراچی)
میری شریک حیا ت کو کچھ عرصے سے یہ شکایت پیدا ہو چلی ہے کہ میں اسے کو لہو کا بیل سمجھتا ہو ں۔ اس کی صحت پر توجہ نہیںدیتا۔ مجھے گھر سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ میرے ساتھ شادی کر کے وہ عذاب میں مبتلا ہوگئی ہے ، وغیرہ وغیر ہ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں فطر تا ً خامو ش طبع ہو ں ۔ اس کے معاملات میں بہت کم دخل دیتا ہوں ۔ دفتر سے آنے کے بعد شام کو کوئی کتاب یا رسالہ پڑھنے بیٹھو ں تو محترمہ خواہ مخوا ہ ناک بھوں چڑھانے لگتی ہیں اور بعض اوقات تو کتا ب وغیر ہ چھین کر لے جا تی ہیں۔ ایسے میں بچے بھی ان کی طرفداری کر تے ہیں۔ بتلائیے اس سے بڑی زیا دتی کیا ہو گی؟محترمہ کو نہ جا نے صفائی سے کیو ں چڑ ہے ؟ بار ہا کہنے کے بعد بھی اس کے کانوں پر جو ں تک نہیں رینگتی ۔ میں نے اس کے آرام کی خاطر ایک ملا زمہ بھی رکھی ہوئی ہے ۔ گزشتہ چند دنو ںسے ہمارے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے ۔ اس کا حل اس نے یہ سو چا کہ عزیز و ں کو جمع کروا کر مجھ پر رعب اور دباﺅڈالے ، مگر میں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو طلا ق کا انتہا ئی اقدام تک کر گزرو ں گا ۔ ایسے حالات میں میرے لیے دوسری کیا صورت باقی رہ جاتی ہے ؟
جوا ب : آ پ نے اپنے گھریلو تنا زعے کے جو وجوہ بتائے ہیں ، ذرا اُن پر ٹھنڈے دل سے غور کریں کیا یہ کسی خاص سلو ک یا طرز عمل کا نتیجہ تو نہیں ؟شکا یت ہمیشہ دوطر فہ ہوتی ہے ۔ اگر آپ کو اپنی بیو ی سے چند شکایات ہیں ، تو لا زما ً اسے بھی آپ سے کچھ شکایا ت ہو ں گی ۔ ایسا ہو نا ایک بالکل قدرتی بات ہے ۔ خدا ئے تعالیٰ نے کوئی بھی دو شخص ہمشکل ، ہم خیا ل اور ہم مزاج پیدا نہیں کیے۔ اس لیے شکایات کاپیدا ہو نا کوئی نئی بات نہیں ۔ میا ں بیوی کی کا میا ب زندگی کا را ز یہ ہے کہ و ہ دونو ں ایک دوسرے کی خاطر فرا خدلی کا ثبو ت دیں اور معمولی معمولی باتو ں سے ( جو آگے چل کر گلے اور شکوے کی صورت اختیا ر کر لیتی ہیں ) ہمیشہ در گزر کریں۔ اس معاملے میں مر د کو اور زیا دہ وسیع القلب ہونا چاہیے ۔ صرف یہی ایک ذریعہ ہے جس سے بیوی کا دل ہاتھ میں لیا جا سکتا ہے ۔ ذرا فرا خدلی سے کام لیجئے ، آپ دیکھیں گے اس سلو ک اور معمولی سی نو ازش سے آپ کی بیوی میں کتنی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے ۔ آگر آپ نے سختی سے کام لیا یا دلیلو ں میں الجھ گئے ، تو معاملہ اور زیا دہ خرا ب ہو جائے گا۔
اب دیکھیے ، صفائی اگر چہ بذات ِ خو د ایک اعلیٰ درجے کی صفت ہے ، لیکن آپ کا اس پر ضرورت سے زیادہ زور دینا اور ہر وقت صفائی صفائی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنا کہا ں تک درست ہے ؟ کوئی صفت بھی حد ِ اعتدال سے بڑھ جا ئے ، تو زحمت بن جا تی ہے ۔ جس طرح آپ کو صفائی کا فوبیا ہو گیا ہے ۔ اسی طر ح اسے اس سے چڑ ہو گئی ہے ۔ بہتر یہ ہے آپ اس سلسلے میں بڑے تحمل سے کا م لیں ۔ ویسے بھی عورتوں کے معاملے میں دخل اندازی ، مر د کے شایانِ شان نہیں ۔ زیا دہ سے زیا دہ یہ کریں کہ خو د برتنو ں کو ڈھانپ دیں۔ آپ اگر بیوی سے تعاون کریں گے تو وہ یقینا آپ سے تعاون کرے گی ۔ لیکن اس میں بڑے صبر اور حوصلے کی ضروت ہے ۔ بات اس طر ح کریں کہ اسے برا نہ لگے ۔ ” وارننگ دینا “ اور یہ کہنا کہ تمہیں میری مر ضی کے مطابق چلنا ہو گا ۔ “ ایسی با تیں ہیں جن سے وہ اور زیا دہ مشتعل ہو جائے گی ۔ یہ مسئلے کا درست حل نہیں ہے ۔ ذاتی اختلا فات کو حقیقت سمجھیں اور ایسا قدم اٹھائیں جو اصلا ح کی طر ف جا تا ہو نہ کہ تباہی کے گڑھے کی طرف ۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے بچو ں پر کیا اثر پڑرہا ہو گا۔ اورنہیں تو اپنے بچو ں کی خاطر ہی اپنی طبیعت پر قابورکھیں ۔ پاکستا نی گھر وں میں اتنی صفائی جو وہم کی حد تک پہنچ جائے ، بچو ں کی شخصیت پر ناگوار، لیکن پائیدار اثر چھوڑ جا تی ہے ، اس لیے غصے کو ضبط کرنا سیکھیں ۔ کو شش کر یں کہ آپ کا گھر پرسکون اور مثالی بنے ۔ بیوی کو اپنا ہم خیا ل بنانے کے لیے اس کی دل جوئی کریں ۔ کبھی کبھا ر اس کے لیے کوئی تحفہ لے جایا کریں ۔ آپ جتنا اس کی شخصیت کو تسلیم کریں گے اور اس کی ہمت کو مانیں گے ، اتنا ہی اس کا تعاون حاصل کرنے میں کامیا ب ہوں گے ۔ مطابقت اختیا ر کرنے کا زریں اصول یہی ہے کہ کچھ آپ جھکیں اور کچھ وہ جھکے ۔ آپ اس کی عزت کریں اور یکطر فہ کا روائی کا انجام اچھانہیں ہو تا۔
پڑھائی کے ٹائم ٹیبل (ریحان، ملتان)
2006 ءمیں نے میٹرک کا امتحان دیا لیکن انگریزی اور الجبرا میں فیل ہو گیا۔ میں نے ہمت نہ ہا ری اور تیاری کر کے دوبارہ امتحان میں بیٹھ گیا مگر پھر نا کام رہا۔ اس بار مجھے بڑا صدمہ ہوا ۔ اب تیسر ی مرتبہ امتحان کی تیاری کر رہا ہو ں ، مگر پڑھائی میں جی بالکل نہیں لگتا ۔ ناکامی کا خو ف ذہن پر سوار ہے ۔ اس کی وجہ سے ٹھیک طر ح پڑ ھ نہیں سکتا ۔ والد صاحب ایک ریٹائرڈ ڈرائیور ہیں ۔ میں ایک ڈاکٹر کے ہا ں کام کرتاہوں۔ سو چا تھا، امتحان پا س کر کے کسی کا لج میں داخلہ لوں گا ، مگر شاید میری یہ آرزو کبھی پوری نہ ہو گی ۔ مجھے مشورہ دیجئے میں کیا کروں ؟
جواب : آپ دل لگا کر باقاعدگی سے مطا لعہ جاری رکھیں۔ امتحان کے لیے سارا سال محنت ضروری ہو تی ہے۔ بالکل ہی پرائیویٹ امتحان دینے کے بجائے آپ کسی پرائیویٹ ادارے میں ( جو ہر شہر میں موجود ہے) داخلہ لے لیں ۔ اس طر ح کم ا زکم آپ کو با قاعدگی سے مطا لعہ کر نے کی عادت ہو جائے گی ۔ کامیا ب انسان وہی ہے جو اپنی ناکامیوں کو تسلیم نہیں کر تا، بلکہ ہر شکست کے بعد اور زیا دہ تندہی سے اپنے کام میں مصرو ف ہو جا تاہے ۔ پڑھائی ایک ٹائم ٹیبل بنا کر اور مستقل مزاجی کے ساتھکریں۔ا نشاءاللہ آپ اپنی منزل تک ضرور پہنچ جا ئیں گے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں